قرآنی عربی: قرآن کا بیان عام فہم ہے – حصہ اول

ترجمہ اور تفسیر- سوره رحمٰن کی ابتدائی آیات

حصہ اول

ہم د یکھتے ہیں کہ ایک ناخواندہ شخص ٹیلی ویژن کی خبر یں بھی سجھ لیتا ھے اور سیاسی اورقومی لیڈروں کی تقاریر بھی، حالانکہ نیوز اینکر اور قومی لیڈر کی زبان معیاری اور اس شخص کی زبان کے مقابلے میں بلند تر ہوتی ہے. اسی طرح اللہ تعالیٰ کے معیار پر تو کوئ کلام نہیں کرسکتا لیکن جہاں تک اسکے پیغامات کو سجھنے کا تعلق ہے تو عام لوگ، بشمول ناخواندہ افراد بھی اپنی ضروت کی حد تک اسکو سمجھ سکتے ہیں۔ قادر مطلق خدا نے اپنےکلام کی اس خوبی کا ذکر سورہٴ رحمٰن کی ابتدائی چار آیات میں کیا ہے

ٱلرَّحۡمَـٰنُ ه عَلَّمَ ٱلۡقُرءَانَ ه خَلَقَ ٱلۡإِنسَاـٰنَ ه عَلَّمَهُ ٱلۡبَيَانَ ه

لیکن تقریباََ تمام مفسرین، علماء اور دانشوروں نے ان  آیات کی ترجمانی  (ترجمہ اور تفسیر) میں غلطی کی ہے۔ مثلا پہلی دو آیات کا بالعموم ترجمہ  یوں کیا گیا ہے۔

”رحمٰن نے (انسان) کو قرآن کا علم دیا، سکھایا، یا تعلیم دی“

دوسری طرف ھم دیکھتے ہیں کہ غیر مسلموں (بہت سے مسلمان طرفداری میں حقیت کو مروڑ بھی سکتےہیں)، جن کی د نیا میں غالب اکثریت رہی ہے، کو قرآن کے بیانات کا علم نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ ترجمہ یا ترجمانی لازماً غلط ہے۔

عام طور پر ایک اہل ایمان، اللہ تعالیٰ کے احترام میں اور علماء کی شخصیات سے متاثر ہو کر اس ترجمہ کو ایک اعلیٰ بیان ہی تصور کرتا ہے۔ لیکن ایک لادین شخص، ہندو، عیسائی، وغیرہ صاف طور پر کہے گاکہ (اگر وہ یہ بات جان لے) یہ جھوٹ ہے۔ یا وہ یہ کہے گا کہ اس طرح کا کھلا جھوٹ بلاشبہ اس الزام کو ثابت کرتا ہے کہ قرآن خدا کی کتاب نہیں ہے۔

اگر مسلم علماء کی بھی بات کی جاۓ تو ھم دیکھتے ہیں کہ ان کے مابین قرآن کی مختلف آیات کے مفہوم میں ٹکراوُ پایا جاتا ہے، اس حد تک کہ وہ مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ اب اگر خدا نے ہی ان علماء کو قرآن سکھایا ہے یا تعلیم دی ہے  تو اسکا واضح مطلب یہ ہوا کہ خدا نے خود انکو متضاد مفہوم سکھا کر فرقوں میں بانٹ دیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ پر اس طرح کا الزام (بالواسطہ اور غیر شعوری طور پر ہی سہی) لگانا درست ہے؟

غلط ترجمہ اور ترجمانی کی وجہ

مسلم اہل علم کی غلط ترجمانی کے تین بڑے اسباب ہیں:

پہلی وجہ ان کا عربی قواعد اور لغت پر اندھا اعتماد ہے کہ ان میں کوئ کمی یا غلطی نہیں ہے۔ آپ ان سے یہی حجت (Argument) سنیں گے کہ لغت میں یہ معنی موجود ہے، اور عربی گرامر یہ کہتی ہے۔ آپ نے کبھی کسی عالم سے نہیں سنُا ہوگا کہ قواعد میں یہ کمی ہے، یا لغت میں یہ غلطی ہے۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ حقیت ہے کہ کوئ بھی انسانی تخلیق (Product) خواہ وہ لغت ہو، قواعد ہو، ترجمہ ہو، تفسیر ہو، یا کچھ اورہو، کامل (Perfect) نہیں ہوتا۔

دوسری وجہ مسلم اہل علم کا اپنی سوچ کو صرف مسلمانوں، یہاں تک کہ صرف اپنے فرقے کے لوگوں تک محددر رکھنا ہے کہ کونسی بات انکو اچھی لگے گی یا غلط محسوس نہیں ہو گی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو پوری انسانیت کیلئے نازل کیا ہے لہٰذا قرآن کے کسی بیان کو پیش کرتے وقت ایک عالم کو احساس ( Realize ) کرنا چاہیے کہ وہ دنیا کے سارے انسانوں کیلئے اللہ تعالیٰ کے پیغام کی یاد دہانی ( Remind ) کرارہا ہے۔ اگر علماء، مفسرین، اور مترجمین قرآن کے اس عالمی پس منظر ( Global Perspective ) کو ذہین میں رکھتے تو بآسانی محسوس (Realize) کرسکتے تھے  کہ غیر مسلوں کو یہ بیان

”کہ خدا نے انسان کو قرآن کا علم سکھایا ہے یا تعلیم دی ہے۔“

باکل جھوٹ نظر آئے گا۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ مسلم علماء اور دانشورحضرات اتنی سی بات کی گرفت(Grasp) نہ کرسکے کہ خدا اس بات پر قادر ہے کہ وہ اپنے کلام کو اعلی سطح پر رکھتےہوۓ اسے عام فہم بھی بنادے۔ ان کا گمان ہے کہ جس طرح عربی کے ایک ماہر انسان کیلئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے اعلی ادبی کلام کو عام لوگوں کے فہم کے دائرے میں لاسکے، اسی طرح قادرِ مطلق خدا بھی ایسا کرنے سے قاصر ہے۔ گویا خدا کی قدرت پر ان کا ایمان چند معاملات تک محددو ھے.

عام لوگوں کیلئے راستہ:

ھم اس کورس کے تعارف میں لکھ چکے ہیں کہ قرآن اس طرح کی کتاب ھے کہ اس کے ترجمے میں جہاں کہیں غلطی ہوتی ھے وہ قاری کو پڑھتے ہی فوراً معلوم ہو جاتی ہے بشرطیکہ وہ پڑھتے وقت اپنی عقل کا استعمال کرے اور دیکھے کہ کونسی بات خلاف عقل ھے۔ لہٰذا ایسے موقوں پر ایک مسلمان قاری کو اپنے ضمیر کی آواز دبانی نہیں چاہئے، بلکہ اسے چاہئے کہ آیت کے عربی الفاظ یا اپنے غوروخوض سے ترجمے کو درست کرنے کی کوشش کرے۔ اگر اس کی یہ کوشش کامیاب نہ بھی ہوسکی تو کم از کم یہ احساس تو رھے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے متعلقہ بیان کو سجھ نہیں پارہا ھے۔ اس طرح وہ قرآن پر جھوٹ گھڑنے سے بچ جائے گا۔ کاش، جھوٹ کے خلاف اتنی حساسیت مسلم علماء اور دانشوروں کے پاس بھی ہوتی۔ لیکن ان کو اپنی بڑائ ظاہر کرنے سے فرصت ہی کب ملتی ھے؟

عَلَّمَ اَلقران کا مفہوم

عَلَّمَ کوئ گہرا لفظ یا تعلیمی اصطلاح  نہیں ھے۔ بلکہ ایک عام لفظ ھے۔ جس کو ناخواندہ عرب بھی بولتے اور سجھتے رہے ہیں۔ اور جسکے معانی تعلیم دنیا، سکھانا، سیکھنے کے قابل بنانا وغیرہ ہوتا ھے۔

جب سے تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا ھے، ان پڑھ لوگ بھی جانتے ہیں کہ ایک پڑھا لکھا انسان وہ تمام کام کرسکتا ھے، اور زیادہ بہتر طور پر کرسکتا ھے، جو ناخواندہ لوگ کرتے ہیں۔ حالانکہ پڑھے لکھے لوگوں کو ان تمام کاموں کے کرنے کا علم نہیں سکھایا جاتا۔ گویا علم یا تعلیم دینے کی دو صورتیں ہوتی ہیں :

ایک، کچھ مخصوص معلومات  کسی کو دے دینا  یا  کوئ مخصوص کام کسی کو سکھا دینا۔ جیسے کسی کو ٹریفک قوانین بتا دینا یا تیرنا سکھا دینا۔

دوسرا، انسان کو کچھ عام یا نئے کام کرنے کے قابل بنا دینا۔ مثلا ایک ڈاکڑ، انجینئر، وکیل اگر چاہے تو کسی اسٹور (Store) کا منیجر بن سکتا ھے۔ حالانکہ اسے اسٹورچلانا نہیں سکھایا گیا ھے۔ اسی طرح وہ گھر بیٹھے مختلف علوم کی کتابیں پڑھ کر معلومات حاصل کر سکتا ھے۔ جو اسے تعلیم  کے دوران پڑھائ یا سکھائ نہیں گئ ھیں۔ اسی طرح”خدا نے انسان کو قرآن کا علم دیا ھے“ کے دو مختلف مطلب ہوسکتے ہیں :

۱- خدا نے انسان کو قرآن میں دی ہوئ معلومات کی جانکاری دے دی ھے۔

۲- خدا نےانسان کو قرآن میں دی ہوئ معلومات جاننے اور سمجھنے کے قابل بنادیا ھے۔

اب ایک عام آدمی بھی بتا سکتا ھے کہ ان دونوں معانی میں پہلا غلط اور دوسرا صحیح ھے۔

کرونا (Corona) کی مثال سے وضاحت

آجکل نوول (Novel) کرونا وائرس پوری دنیا میں پھیلا ہوا ھے۔ اور لوگ جانتے ہیں کہ دنیا کے کسی میڈ یکل کالج نے اپنے پاس ہونے ڈاکٹروں کو کرونا وائرس، اس سے پھیلنے والی بیماری ۱۹ ۔Covid، اور اسکا علاج نہیں سکھایا ھے تاھم ان اداروں نے اپنی تعلیم سے ان ڈاکٹروں کو اس قابل بنا دیا ھے کہ وہ ہر نئے مرض پر کام کرکے وقت کے ساتھ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں طب کی تعلیم دینے والے اساتذہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹروں کو اس قابل بنا دیا ھے کہ وہ وقت اور محنت (Time & Effort) سے نوول کرونا وائرس کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے  ڈاکٹروں کو نوول کرونا وائرس اور Covid-19 کے بارے میں علم دے دیا ھے، سکھا دیا ھے، یا تعلیم دی ھے۔ باکل اسی طرح خدا یہ توکہہ سکتا ھے کہ اس نے ہر انسان کو قرآن (کی ہدایات) جاننے سجھنے کے قابل بنایا ھے۔ لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے ہر انسان کو قرآن (کی ہدایات) سکھا دیا ھے۔


تاریخ سے دلیل:

مکہ میں نزولِ قرآن کے وقت یہ ایک باکل نئی کتاب تھی، جس کے حصے وقفے وقفے سے نازل ہورھے تھے اور محمدﷺ مشرکین کو سناتے جارھے تھے۔ لہٰذا مشرکینِ عرب سوچ بھی  نہیں سکتے تھے کہ قرآن ایک ایسی کتاب تھی جسکے مضامین کا علم ان کو پہلے سے سکھا دیا گیا تھا یا اس وقت پورے عرب (مکہ سے باہر عرب کا بہت بڑا علاقہ تھا) میں خدا قرآن سکھا رہا تھا۔ لہٰذا جن لوگوں نے بھی سورۃ رحمٰن سنی، انہوں نے”علم القرآن“  کا لازمی طور پر یہ مطب لیا کہ محمدﷺ کے مطابق (ان کی اکثریت قرآن کو الله کی کتاب نہیں مانتی تھی) خدا نے ان لوگوں کو قرآن سمجھنے کے قابل بنایا تھا۔

اسے دوسری طرح سے دیکھیے۔ نزول قرآن کے وقت کوئ لغت یا گرامر کی کتاب نہیں تھی (یہ کام تیسری صدی ھجری سے شروع ہوا) بلکہ اھلِ عرب فطری طور پر عربی بولتے تھے اور عربی الفاظ کے معانی جانتے سجھتے تھے۔ اگر وہ ‘علم القرآن’ کا مطب یہ لیتے کہ خدا نے انسان کو قرآن کا علم دیا ھے یا سکھا دیا ھے یا تعلیم دی ھے۔تو ابولہب، ابوجہل وغیرہ کو یہ کہنے کا بہت اچھا موقع مل جاتا کہ محمدﷺ باکل غلط کہتے ہیں، اس سے تو صاف پتا چلتا ھے کہ انکا ذہنی  توازن بگڑ چکا ھے،وہ مجنوں ہو گئے ہیں، بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں، لہٰذا ایک پاگل کی بات پر لوگ دھیان نہ دیں اور عام اہل عرب بھی محسوس (Realize) کرتے کہ محمدﷺ کا یہ دعوی کہ” قرآن کا علم خدا نے ان لوگوں کو سکھا دیا ھے“ واقعی ایک خلاف عقل بات ھے۔ لیکن کفار کے خواص وعوام نے”علم القرآن“ کے حوالے سے ایسا کبھی نہیں کہا۔ اس کی واحد توجیہ یہی ممکن ھے کہ اہل عرب اچھی طرح جانتے تھے کہ عَلَّمَ کا ایک مطب کسی کو جاننے، سجھنے، یا سکیھنے کے قابل بنا دینا ہوتا ہے.


قرآن سے ثبوت:

سورۃ توبہ (برآت) کی آیت نمبر6 میں کہا گیا : اگر ان (عرب) مشرکین میں سے کوئ شخص پناہ طب کرکے تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے) تو پناہ دے دو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچا دو۔ ایسا اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ علم نہیں رکھتے

یہ آیت جو نزولِ قرآن کے آخری دنوں میں نازل ہوئ خود بتارہی ھے کہ بہت سے مشیرکین قرآن کا علم  نہیں رکھتے تھے۔ وہ اپنے تکبر یا سرداروں کی باتوں میں آ کر معلوم  نہیں کرتے تھے کہ محمدﷺاللْٰہ تعالیٰ کی جانب سے کیا پیغامات لانے کا دعوی کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس بات کی ضرورت تھی کی جو لوگ قرآن کا بیان سن کرغور کرنا چاہیں کہ قرآن اللْٰہ کی جانب سے ہے یا نہیں، تو ان کو یہ موقع ملنا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں اللْٰہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو قرآن  نہیں سکھایا تھا، بلکہ قرآن سمجھنے کے قابل بنا دیا تھا۔

پھر یہ بھی دیکھے کہ درج بالا آیت کے مطابق بہت سے مشرکین قرآن کے بیانات کا علم نہیں رکھتے تھے۔ پھراس سے  کوِئ پندرہ سال پہلے نازل ہونے والی آیت”عَلَّم آلقران“  کا یہ مطلب کیونکرنکالا جاسکتا ھے کہ خدا نے انسان کو قرآن کا علم سکھا دیا تھا؟ کیا قادر مطلق خدا کے سکھا دینے کے بعد بھی انسان لا علم رہ سکتا ھے؟

علماء کی  ناقص لسانی سمجھ

”تاریغ سے دلیل“ کے عنوان کے تحت اس بات کی نشاندہی کی گیئ ھے کہ قواعد اور لغت کی تدوین تیسری صدی ھجری میں شروع ہوِئ۔ بعد کے ان علوم کی رو سے ھمارے علماء جانتے ہیں کہ”عَلَّم“ کا مادہ ع ل م ھے۔ اس مادے سے باب ثلاثی مجرد میں فعل عَلِمَ آتا ھے اور یہ باب تفعیل  میں جاکر عَلَّمَ بن جاتا ھے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ فعل متعدی (Transitive Verb) ھے۔ لیکن اس لفظ کی فطری کہانی علماء کو معلوم نہیں کیونکہ یہ کہانی قواعد اور لغت کی کتابوں میں لکھی ہوئ نہیں ھے۔

آپ اس بات کو ایک مثال سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ جب آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پرندوں کو اڑنے  کاعلم دیا ھے، یا اڑنا سکھا دیا ھے ، یا اڑنے کی صلاحیت دی ھے، یا اڑنےکے قابل  بنا دیا ہے  تو ان تمام جملوں ایک ہی مطلب ہوتا ھے۔ دوسرے لفظوں میں ان تمام جملوں میں”عَلَّمَ“  کا مطلب لفظی طور پر مختلف ہونے کے باوجود ایک ہی ھے۔
اب آیۓ  ان جملوں کی تعداد کم کرکے اس طرح کے جملوں کا انسانوں کے حوالے سے موازنہ کرتے ہیں۔ فرض کیجیے آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پرندوں کو اڑنا سکھا دیا یا اڑنے کے قابل بنا دیا ھے تو ان دونوں جملوں کے مفہوم میں کوئ فرق نہیں ہوتا۔ مگرآپ یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قرآن سکھا دیا ھے یا انسان کو قرآن سمجھنے کے قابل بنا دیا ھے تو ان دونوں جملوں کے معانی بالکل مختلف ہوجاتے ہیں۔ جب دو متضاد معانی نکلتے ہوں تو یہ محض کامن سینس (Common Sense) کی بات ھے کہ عَلَّمَ کا وہی مطب لیا جائیگا۔ جو حقیت کے مطابق ہو۔

ھم اس سے قبل میڈ یکل کی تعلم اور کورونا کی مثال دے چکے ہیں۔ اس مثال سے بھی واضح ہوتا ھے کہ علم دینے کی ایک صورت یہ ہوتی ھے کہ انسانوں میں کوئ نیا کام کرنے کی صلاحیت پیدا کردی جائے۔ لیکن ھمارے علماء اور دانشوروں کا علم عربی قواعد اور لغت تک محدود ھے۔ وہ فطری زبان کو نہیں سمجھتے حالانکہ اللہ نے قرآن اسی فطری زبان میں نازل کیا ھے۔ حو اہل عرب بولتے تھے۔

جاری ہے…

Scroll to Top