قرآن کا بیان عام فہم ہے۔ حصہ دوم

ترجمہ اور تفسیر- سوره رحمٰن کی ابتدائی آیات

حصہ دوم

”البیان“ کا مفہوم

لفظ ”بیان“ سے مراد بنیادی طور پر statement ہے جو الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ جانوروں کی زبان الفاظ پر مشتمل نہیں ہوتی۔ پھر موقع اور محل کی مناسبت سے اس کا مطلب دھمکی ، نصیحت، اعلان، اعادہ وغیرہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ سب بیان کی مختلف شکلیں ہیں۔

آپ اپنی بات دوسرں تک واضح کرنے کیلئے ایک ”بیان“ دیتے ہیں۔ اسی طرح دوسروں کے ”بیان“ سے آپ ان کا مدعا سمجھ لیتے ہیں۔ گویا آپ اسے کلام کا ہم معنی کہہ سکتے ہیں۔ خود قرآن نے اپنے لیے [انسانوں کیلِئے] اللہ کا کلام (9:6) اور [اللہ کا] انسانوں کیلئے بیان [3:138] کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔

چونکہ کلام یا بیان کی صلاحیت مجموعی طور پر ہر شخص میں مختلف ہوتی ہے، اسی لیئے یہاں ”بیان“ سے قبل ”ال“ کا اضافہ کردیا گیا ہے۔یعنی بیان کی وہ صلاحیت جو ہر شخص کو پرورش کے دوران اور بعد کے وقتوں میں حاصل ہوجاتی ہے۔

چونکہ علماء اور دانشور حضرات کلیتاً لغت میں دیے ہوئے معانی پر انحصار کرتے ہیں اسی لیئے کسی نے اس کا مطلب محض گویائی یا اظہار مافی الضمیر(expressing the intended meaning) تک محددو کردیا ہے، کسی نے اس کے معانی”فرق و امتیاز“ کئے ہیں، صحیح انٹرنیشنل ترجمہ میں اسے(eloquence) کہا گیا ہے۔ واضح رہے کہ لغت میں اسکا ایک معنی statement بھی ہے۔ شایدstatement عربی سے انگریزی لغت میں ہے، اس لئے یہ معنی ہمارے علماء کو پسند نہیں آیا۔ بہرکیف، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت تو اہل عرب کی غالب اکثریت ناخواندہ تھی، پھر کیا ناخواندہ لوگ علمی باریکی سے تعریف کردہ (academically finely defined) الفاظ بولتے اور سمجھتے ہیں۔ اس سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ”بیان“ ایک عام لفظ ہے جسے ایک ان پڑھ انسان بھی استعمال کرتا تھا اور کرتا ہے۔

زیادہ تر علماء نے ”بیان“ کو “اظہار مافی الضمیر” قرار دیا ہے۔ لیکن یہ صلاحیت تو اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو بھی دی ہے۔ اگرچہ ان کی زبان ہم سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے علماء لغت اور قواعد سے باہر زبان کے فطری زاویوں کا ادراک ہی نہیں کرسکتے۔
دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان”امی“ (ناخواندہ) عربوں سے کہا تھا کہ یہ قرآن”مبین عربی“ میں ہے۔ یعنی تم جس عربی کو مبین (صاف اور واضح) طور پر جانتے اورسمجھتے ہو، یہ قرآن اسی عربی زبان میں ہے۔

المختصر، انسان اپنی پرورش اور بعد کے وقتوں میں ایک یا کئی زبانیں بولنا اور سمجھنا سیکھ لیتا ہے۔ قرآن نے ہر فرد کی اسی زبان و بیان کی صلاحیت کو ” البیان“ کہاہے۔

نوٹ :۔ آیت میں ” کلام“ کی بجائے ”بیان“  کا لفظ استعمال ہوا ہے جس  سے  ظاہر  ہوتا  ہے کہ کلام کے مدعا (intended meaning) پر زور دیا گیا ہے۔ یہ قرآن کا مدعا ہے۔ جس کو جاننا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی پوری لسانی اور ادبی تفصیل کو سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔

واضح  رہے کہ ”بیان“ کا مقصد دراصل  مدعا یا intended meaning کا دوسرے تک ابلاغ ہے۔ جبکہ کلام میں یہ بات بھی شامل ہے اور دیگر خوبیاں مثلا لسانی حسن، ادبی حسن، موسیقیت یا غنائیت  اور شاعرانہ احساسات وغیرہ بھی شامل ہیں۔

” الرحمٰن“ کی وضاحت

اکثر علماء”الرحمٰن ہ علم قرآن ہ“ کو ایک جملہ مانتے ہیں۔ یعنی وہ ”الرحمٰن“ کو مبتدا ( فاعل کے برابر) خیال کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ الیسے علماء قرآن میں ” آیت ” کے تصور سے واقف نہیں ہیں۔ مختصر یہ کہ تقریر کے شروع میں محض ایک لفظ کہہ کر ایک لمبا وقفہ دینا اسی صورت میں حکیما نہ یا مناسب ہوسکتا ہے جب مقرر پوری بات کو ایک لفظ سے ظاہر کر رہا ہو۔ ھہاری نگاہ میں خدا کا اپنی ہدایتی تقریر(guidance speech) کے شروع میں”الرحمٰن“ کہہ کر وقفہ کر لینے کے دو مطالب ہوسکتے ہیں :

1۔ الله انسانوں پر بہت زیادہ مہربان ہے۔
2۔ اے انسانوں، غور سے سنو، اللہ جو نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اپنی سب بڑی رحمت کا ذکر کررہا ہے۔

اس دنیا میں عظیم ترین رحمت کا ذکر کرنے سے پہلے انسانوں کو متوجہ (Attentive ) اور متجسس (Eager) کرنے کے لیے وقفہ دینا ایک حکیمانہ عمل ہے. لہٰذا الله تعالیٰ نے اس وقفے کے بعد بتایا کہ اس کی رحمت یہ ہے کہ اس نے ہر انسان کو قرآن سمجھنے کہ قابل بنا دیا ہے.

چاروں آیات کا مربوط ترجمہ
یہ آیات درج ذیل ہیں :

ٱلرَّحۡمَـٰنُ ه عَلَّمَ ٱلۡقُرۡءَانَ ه خَلَقَ ٱلۡإِنسَانَ ه عَلَّمَهُ ٱلۡبَيَانَ ه

قرآن ایک کلام ہے اور کلام علیٰحدہ علیٰحدہ جملوں کا مجموعہ نہیں ہوتا۔ بلکہ کلام میں ایک بات مکمل کی جاتی ہے، پھر دوسری بات شروع کی جاتی ہے، اسی طرح دوسری بات مکمل کرنے کے بعد تیسری بات شروع کی جاتی ہے۔

اگر علماء کی تاویلات سے خالی الذھن ہو کر اللہ تعالیٰ کے بیان پر نظر ڈالی جائے تو یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور دو الفاظ پر مشتمل بیان کے یہ چار ٹکڑے علیٰحدہ علیٰحدہ نہیں ھیں بلکہ ایک مربوط (connected) بیان ہے۔ جو زورِ کلام کے اسلوب پر ہے۔ یہاں ایک بیان طاقتور (Forceful) طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس بیان کا مربوط ترجمہ کرنے کیلئے عطف (connector) اور فِلر (filler) الفاظ کی ضرورت پڑے گی۔ اس کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ ان اضافی الفاظ کو قوسین (Bracket) میں لکھا جاۓ اس سے الله تعالیٰ کے الفاظ تبدیل نہیں ہوتے اور قاری دیکھ بھی سکتا ہے کہ رابطے مناسب لائے گئے ہیں یا نہیں۔ نیز ان الفاظ میں اگر کوئی غلطی ہوئی تو وہ مترجم کی غلطی شمار ہوگی، قرآن کی نہیں۔

عطف (Connector ) دو آیات کے مابین ربط پیدا کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ فلرز (filler) اس لیئے ہوتی ہے کہ بیان کے verbal اور nonverbal اجزاء ہوتے ہیں اور موخرالذ کر یغی nonverbal جزو تحریری بیان کے سیاق و سباق (context ) میں ہوتا ہے۔ مختلف لوگ مختلف قسم کے connectors اور fillers استعمال کرسکتے ہیں، شرط صرف یہ ہے کہ آیات میں مذ کورہ بیان تبدیل نہ ہو اور کلام بھی مربوط ہو جائے۔

مثال کے طور درج ذیل عطف اورfillers سے آیت 3 اور 4 کو اس طرح مربوط کیا جاسکتا ہے :

1۔ اس نے انسان کو پیدا کیا [پھر] اسے ( پرورش کے دوران) بیان کرنا اور بیان سمجھنا سکھا دیا۔

2۔ اس نے انسان کو (اس طور پر) پیدا کیا [کہ] اسے بیان کرنا اور بیان سمجھنا سکھا دیا۔

اسی طرح connectors اور fillers کے استعمال سے چاروں آیات کا ایک مربوط ترجمہ درج ذیل بنتا ہے :


(اللہ) نہایت مہربان ہے۔ (ا س کی عظیم مہربانی یہ ہے کہ) اس نے (انسان کو) قرآن سمجھنے کے قابل بنادیا ہے۔ [وہ اس طرح کہ] اس نے انسان کو پیدا کیا۔ [ پھر اس کی پرورش اور بڑا ہونے کے دوران] اسے بیان دینا اور بیان سمجھنا سکھا دیا۔

ابوالاعلىٰ مودُودی ر ح   کا بنیادی مغالطہ

مولانا مودُودی نے احساس کیا کہ”خدا نے انسانوں کو قرآن کی تعلیم دی ہے“ واضح طور پرغلط بیانی ہے تاہم اس غلط بیانی سے بچنے کیلئے انہوں نے اپنی تفہیم القرآن” میں خدا کا قرآن کی تعلیم دینا“ سے مراد ”خدا کا محمدﷺ کو قرآن کی تعلیم دینا“ قرار دیا ہے۔ ان کی یہ تاویل درج ذیل وحوہات کی بنیادپر درست نہیں ہے :

1۔ مودُودی ر ح   نے دلیل اس پس منظر کو بنایا ہےکہ کفارِ مکہ محمدﷺ پرالزام لگارہے تھے کہ انہوں نے قرآن خود گھڑ لیا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بتایا کہ یہ رحمٰن ہے جس نے اسے (محمدﷺ) قرآن کی تعلیم دی ہے۔ لیکن اس طرح کا کوئی سیاق و سباق (Context) اس سورۃ میں کہیں بھی موجود نہیں ہے اور نہ ہی یہ صورت کہیں پر کفارِ مکہ سے بالخصوص خطاب کرتی ہے۔

2۔ اگر مودُودی صاحب  کا مذکوره سیاق و سباق پر context مان بھی لیا جائے تو اللہ تعالیٰ ایسےموقوں پر محمدﷺ کی صفائی بیان کرتے وقت، نبی، رسول، اپنا عبد، کَ اور ہُ وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ ”عَلَّمَ القرآن“ میں الیسا کوئی کلمہ استعمال نہیں ہوا ہے۔

3۔ سورۃ رحمٰن کی آیات کے مخاطب یا تو سارے انسان ہیں یا پھر انسانوں اور جنوں کی دونوں جماعتیں۔ لہٰذا”علم القرآن“ میں مفعول انہیں دونوں میں ایک ممکن ہے۔

4۔ بیان کے کسی جملہ میں اگر اختصار یا حسنِ کلام کیلئے مفعول مضمر (Implied) رکھا جائے۔ تو اس کے بعد کے جملے میں اسے واضح کردیا جاتا ہے۔ اور”عَلَّمَ القرآن“ کے فوراً بعد”خلق الانسان“ ہے اس طرح  مفعول”الانسان“  واضح کر دیا گیا ہے۔

یہاں بالخصوص حسنِ کلام یا بلاغت کا مسئلہ ہے۔ اگر”عَلَّمَ“ کے بعد”الانسان“  لایا جاتا تو محض دولفظوں کے بعد اسے پھر دوہرانا پڑتا۔ اس سے کلام عامیانہ ہوجاتا۔ ایک اور ممکن صورت یہ تھی کہ” عَلَّمَ“ کے بعد”الانسان“ لایا جاتا پھر خلق الانسان کی جگہ خلقہ کہا جاتا مگر اس صورت میں چوتھی آیت میں انسان کیلئے ضمیر  دوبارہ موجود ہے۔ اس طرح ضمیر (هُ) کی دوبارہ تکرار سے کلام عامیانہ ہوجاتا۔

واضح رہے کہ عَلَّمَ کے ساتھ” کَ“ لگانے سے بلاعت کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ آیندہ آیات میں” کَ“ کہیں بھی نہی آیاہے۔ لہٰذا یہاں پر”ک“ کا نہ لانا اس بات کا ثبوت ہے کہ عَلَّم کا مفعول محمدﷺ نہیں ہیں

5۔ ”عَلَّمَ القرآن“ میں شخصی مفعول محمدﷺ کو لینے سے قرآن کی رحمت محمدﷺ تک محدور ہوجاتی ہے۔ جبکہ دس سے  زیادہ مقامات پر اللہ نے قرآن کو تمام مومنین کیلئے رحمت قراردیا ہے۔

چند دوسرے اہل علم کا حال

نعمان علی خان نے بھی لغت کا ذہنی غلام بن کر”عَلَّم القرآن“ کا مفہوم “he taught the Quran” لیا ہے۔ پھر اس کا کہنا ہے کہ ”عَلَّمَ القرآن“ میں خدا ٹیچر ہے لیکن students کو ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ وہ عَلَّم کا شخصی مفعول سب سے پہلے جبرائیل، پھر محمدﷺ، پھر صحابہ کرام، پھر نسل در نسل تمام اہل ایمان کو لیتا ہے۔ اس تاویل میں تین بڑی غلطیاں ہیں :

1۔ مفعول آیت اور سورۃ کے باہر سے لایا گیا ہے۔ جو قرآن میں باہر کی کہانی داخل (insert) کرناہے۔ اوریہ ایک معنوی تحریف ہے۔

2۔ جب اسلام عرب سے باہر پھیلا تو عجمیوں نے اسلام تو قبول کر لیا۔ مگر مختلف زبان بولنے کی وجہ سے قرآن کو نہ خود کماحقہ، سیکھا اور نہ ہی اپنے بچوں کو سکھایا۔ اس طرح سے آج غیر عرب مسلمانوں کی اکثریت قرآن کا علم نہیں رکھتی۔ لہٰذا یہ دعوی کرنا کہ خدا نے سارے مسلمانوں کو قرآن سکھا دیا ہے، جھوٹ ہے۔

3۔ اگر نعمان علی خان کا نکتہ درست بھی مان لیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے تو غیر مسلموں کو قرآن سکھایا ہی نہیں۔ اب مسلمانوں کو قرآن سکھا دیا اور غیر مسلموں کو نہیں سکھایا، پھر خدا غیر مسلموں کو قرآن پر ایمان نہ لانے اور عمل نہ کرنے کی سزا کیوں دے گا ؟

فراحی، اصلاحی، اور غامدی سلسلے میں اصلاحی صاحب نے ”عَلَّمَ القرآن“ کا ترجمہ یوں کیا ہے۔

”خدائے رحمان نے قرآن کی تعلیم دی“ پھر اصلاحی صاحب نے”الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت“ کے تحت تفسیر میں لکھا ہے۔

”تمہاری تعلیم اور تذکیر کیلئے قرآن کریم جیسی رحمت و برکت نازل فرمائیں“۔ اسی طرح اصلاحی صاحب نے پہلے کہا کہ”خدا نے قرآن کی تعلیم دی“، پھر کہا کہ”خدا نے قرآن نازل فرمایا“۔ ظاہر تعلیم دینا اور نازل کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ لوگ یہ بھی نوٹ کریں کہ انہوں نے عنوان”الفاظ کی تحقیق“ باندھا ہے لیکن”عَلَّمَ“ لفظ کی کوئی تحقیق نہیں کی۔

ڈاکڑ اسرار احمد نے ”عَلَّمَ القرآن“ کا مطلب”خدا نے قرآن سکھایا ہے یا تعلیم دی ہے“ بیان کیا۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ ان آیات میں چار چوٹی کی چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے : خدا کے ناموں میں سب سے اونچا نام رحمن، اس کی کتابوں میں اونچی کتاب قرآن، مخلوق میں سب اونچی مخلوق انسان، اور مخلوق کی صلاحیتوں میں سب سے اونچی صلاحیت بیان یا کلام ہے۔

قرآن اور حدیث میں کہیں بھی مذکور نہیں ہے کہ خدا کے ناموں میں سب سے اونچا نام رحمٰن ہے۔ اسی طرح اللہ اور اسکے رسول محمدﷺ نے کبھی نہیں کہا کہ اس کی کتابوں میں اونچی کتاب قرآن ہے۔ اللّہ تعالیٰ نے تو یہی کہا ہے۔ کہ اس نے قرآن سے پہلے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت تھی، نور تھا، اور مومنین کیلئے رحمت تھی اور اب اس نے قرآن نازل کیا ہے جس میں ہدایت ہے، نور ہے، اور مومنین کیلیے رحمت ہے۔

قرآن سے ظاہر ہوتا ہے، کہ خدا نے قوموں کو اونچی نیچی کتابیں نہیں دیں بلکہ وقت کی ضرورت کے مطابق کتابیں دی ہیں۔ یعنی نوح کو جو کتاب دی گئی تھی وہ قومِ نوح کے وقت کے لحاظ سے بالکل ٹھیک تھی، اور قرآن امت محمدیﷺ کے وقت کے لحاظ سے باکل مناسب ہے۔ وقتی ضرورت کے مطابق ہی کتاب کا نزول درست بنیاد ہے اور اس بات سے دوسرے لوگ مجروح (offended) بھی نہیں ہونگے۔ مثلا اگر دعوت دیتے وقت آپ نے کسی عیسائی سے کہہ دیا کہ انجیل ایک نچلے درجے کی کتاب تھی تو وہ آپکی بات نہیں سنے گا۔

اسی طرح کلام انسانوں سے مخصوص ضرور ہے (جانوروں کو کلام کی صلاحیت نہیں دی گئی ہے) لیکن یہ کہنا کہ یہ مخلوق کی صلاحیتوں میں سب سے اونچی صلاحیت ہے، غلط ہے۔ آپ تصور کیجئے کہ خدا نے آپ کو گونگا کر دیا- پھر تصور کیجئے کہ آپ کو زبان واپس مل گئ لیکن خدا نے آپکو دونوں آنکھوں سے اندھا کردیا آپ بتائیے ے آپ زیادہ لاچار (disabled) کب محسوس کریں گے؟ گونگے ہونے پر یا اندہے پر؟ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ڈ اکٹر اسرار صاحب کی سوچ میں کتنی گہرائی تھی۔

ڈاکٹر اسرار اور نعمان علی خان کی متعلقہ ترجمانی جاننے کیلئے درج ذیل لنک کو کلک کیجئے ۔
[Link ]

المختصر سورۃ الرحمٰن کی ان ابتدائی چار آیات پر غور کرنے سے آپ کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی کہ قرآن ایک آسان مبین اور عام فہم کتاب ہے اور اسکے ترجمے یا تفسیر سے پیدا ہونے والی الجھنیں متعصب علماء اور نابلد دانشوروں کی اپنی اختراع اور ایجادات کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔

ڈاکٹر نواب احمد

***************

Scroll to Top